اردو زبان اپنی شیرینی
و شگفتگی، شائستگی و شستگی اور سادے پن کے سبب دنیا کے بیشتر
ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اوراسکی گونج
ہرطرف سنی جاتی ہے، قمقموں سے چمکتے دمکتے ہالوں میں بھی
ظلمت و تیرگی سے معمور گذرگاہوں میں بھی، راجاؤں،
مہاراجوں کے سجے دھجے محلوں میں بھی، درویشوں، فاقہ کشوں کے بوسیدہ
اور خستہ حال جھونپڑوں میں بھی۔ یہ زبان مختلف چیلنجوں
اور نبرد آزما حالات سے متاثر ہوئے بغیر آج غیرمعمولی ترقی
کرچکی ہے، نیز اپنی حلاوت و چاشنی اور سلاست و پاکیزگی
کے سبب ہر ایک کو اپنا گرویدہ بناچکی ہے، چنانچہ زبان و ادب کا
ادنی ذوق رکھنے والا بھی اردو ادب کے میدان میں بادیہ
پیمائی اور صحرا نوردی کرنے پرمجبور ہے، کبھی تو دل میں
گدگداہٹ پیدا کرنے والے احساسات و تصورات کو نثر کی شکل میں
الفاظ کا حسین جامہ پہناتا ہے، جسے اہل فن داستان، افسانہ، سفرنامہ اور
انشائیہ کا نام دیتے ہیں، یا پھر یہ کہ دل میں
چھپی محبت و عشق کی ترجمانی کے لئے اشعار کا سہارا لیتا
ہے جسے اہل زبان غزل ، نظم، حمد اور منقبت وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس مقالہ کا اصل مقصد تو علم و ہنر کا
گہوارہ، رشد وہدایت کا میخانہ، حکمت و دانائی کا منبع اور
کاشانہٴ حریت سے نکلنے والے ان جیالوں اور علوم و فنون کے رمز
شناسوں کے اردو شعر و ادب میں ادبی مقام کو اجاگر کرنا ہے؛ لیکن
اس پر خامہ فرسائی سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان جو گنگا جمنی
تہذیب کی ترجمان اور قومی یکجہتی کا امین ہے،
اس کے متعلق کچھ تمہیدی باتیں ذکر کردی جائیں تاکہ
موضوع بے غبار ہوجائے۔
اردو زبان آغاز و ارتقا
تاریخ ادبیات کے مصنف پروفیسر
”وہاب اشرفی صاحب“ کے بیان کے مطابق گیارہویں یا
بارہویں صدی میں ”کھڑی بولی“ کا آغاز ہوا، دہلی
کے آس پاس میرٹھ، مراد آباد وغیرہ میں بکثرت یہ زبان بولی
اور سمجھی جاتی تھی، پھر اردو کے ساتھ فارسی اور دیگر
زبانوں کی آمیزش ہوئی تو کھڑی بولی کاچلن رفتہ رفتہ
ختم ہوگیا، اور اٹھارہویں صدی میں مختلف زبانوں سے مرکب
ہوکر باضابطہ اردو کا آغاز ہوا۔(۱)
رہی یہ بات کہ اردو زبان کی
ابتداء کہاں سے ہوئی؟ تو اس سلسلے میں مختلف اقوال ملتے ہیں جس
سے کسی ایک جگہ کی تعیین مشکل ہے، مثلاً سید
سلیمان ندوی نے کہا: اردو زبان کی ابتدا وادی سندھ میں
ہوئی، ”نصیرالدین ہاشمی“ نے اپنی کتاب ”دکن میں
اردو“ میں لکھا: کہ اردو زبان کی ابتدا دکن سے ہوئی، ”محمود شیرانی“
نے اپنی تصنیف ”پنجاب میں اردو زبان“ میں تحریر کیا:
کہ اردو کی ابتدا پنجاب سے ہوئی اور ”محمد حسین آزاد“ نے اپنی
کتاب ”آب حیات“ کے دیباچہ میں رقم کیا: کہ اردو ”برج
بھاشا“ کی بطن سے پیدا ہوئی۔
ان مذکورہ بالا اقوال کی روشنی
میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان کی ابتدا کسی ایک
علاقے یا اس کے ہم رشتہ باشندوں سے نہیں ہوئی؛ بلکہ مختلف
علاقوں، قوموں، کلچروں اور تہذیب و تمدن کے باہمی اختلاط اور آپسی
میل جول سے یہ زبان وجود پذیر ہوئی۔
چنانچہ ”اختر اورینوی“ لکھتے
ہیں : زبان کی انفرادیت تو اسی وقت گم ہوجاتی ہے جب
ایک انسانی ٹولی دوسری ٹولی سے ملتی ہے، ایک
قبیلہ دوسرے قبیلہ سے رسم و راہ قائم کرتا ہے اور ایک نسل کے
لوگ دوسری نسل کے لوگوں سے ملنے جلنے لگتے ہیں۔ یہ تعلقات
نوع انسانی کے آغاز سے ہی پیدا ہونے لگتے ہیں، ایک
بولی دوسری بولی سے اثر پذیر ہوتی ہے، ایک
تہذیب دوسری تہذیب سے اثر قبول کرتی ہے نتیجہ یہ
ہوتا ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک قوم کے گہوارئہ تمدن میں
پرورش نہیں پاتی بلکہ کئی قومیں مل کر اس کی پرداخت
کرتی ہیں۔(۲)
زبان کی تعریف
زبان کہتے ہیں مافی الضمیر
کے احساسات و خیالات کو جسمانی حرکتوں کے ذریعہ قصداً لفظ کا ایسا
جامہ پہنانا کہ دوسروں کو بآسانی وہ بات سمجھ میں آجائے اور متکلم جب
چاہے اس کا اعادہ کرلے، چنانچہ ”ڈاکٹر محی الدین قادری“ زبان کی
تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پس زبان کی واضح تعریف ان
الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ زبان انسانی خیالات اور
احساسات کی پیدا کی ہوئی ان تمام عضوی و جسمانی
حرکتوں اور اشاروں کا نام ہے جن میں زیادہ تر قوت گویائی
شامل ہے اور جن کو ایک دوسرا انسان سمجھ سکتا ہے اور جس وقت چاہے اپنے ارادہ
سے دہراسکتا ہے۔(۳)
سید احتشام حسین نے ہندوستانی
لسانیات کا خاکہ از جان بیمز کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے مقدمے میں
تحریر فرماتے ہیں:
”یہ بتانا تو بہت مشکل ہے کہ زبان
کسے کہتے ہیں؛ لیکن سمجھنے کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ زبان
آوازوں کے ایک ایسے مجموعے کا نام ہے جسے انسان اپنا خیال
دوسروں پر ظاہر کرنے کے لئے ارادتاً نکالتا ہے اور ان آوازوں کے معنی معین
کرلئے گئے ہیں تاکہ کہنے اور سننے والے کے یہاں تقریباً ایک
ہی جذبہ پیدا ہو، الفاظ ان ذہنی تصویروں کی ملفوظی
علامتیں ہیں جنہیں ہم دوسروں کے ذہن تک پہنچانا چاہتے ہیں،
اس طرح زبان ایک بڑا پیچیدہ موضوع بن جاتی ہے؛ کیوں
کہ کہنے والا ایک میکانکی اورجسمانی ذریعہ سے سننے
والے دماغ میں ایک نفسیاتی کیفیت بیدار
کرتا ہے اور اردو زبان تالو، حلق، دانت، ہونٹ اور پھیپھڑے کے مرکب اور پیچ
درپیچ عمل سے دماغ کے وہ حصے تقریباً یکساں طورپر اثر پذیر
ہوتے ہیں، جن میں خیال پیدا ہوتے ہیں۔ اور جو
آوازوں سے بنی ہوئی ملفوظی تصویروں کے معنی جانتے ہیں۔“(۴)
ادب کسے کہتے ہیں
ادب کی تعریف کرتے ہوئے ”غبار
کارواں“ کے مصنف یوں رقم طراز ہیں:
”انسان کا کلام جب تک ضروری اور
معمولی دائرے میں رہتا ہے تو اسے زبان کہتے ہیں، اور اگر اس
کلام میں وسعت پیدا کرکے ایک مضمون کو کئی اسلوب میں
ڈھال دیا جائے تو اسے ادب کا نام دے دیا جاتا ہے۔“(۵)
زبان وادب کے مابین فرق
زبان وادب میں فرق کیا ہے
اسکو واضح کرتے ہوئے مولانا سید رابع حسنی صاحب لکھتے ہیں:
”ادب کے لئے زبان کی حیثیت
گہوارہ کی ہے جس میں ادب پرورش پاتا ہے اور زبان ادب کے علاوہ زندگی
کے دیگر ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے
اور اپنی طاقت و اثرپذیری کے لئے ادب کو ذریعہ بناتی
ہے۔“(۶)
ادب کی وسعت و ہمہ گیریت
ادب کسی زبان یا فن کے ساتھ
مخصوص نہیں؛ بلکہ اس کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے اس کی ضرورت
ہر زبان میں پڑتی ہے اور اس کا اثرہر فن میں نمایاں ہوتا
ہے، تاثرات و جذبات کی ترجمانی کا مرحلہ ہو یا غم و اندوہ کی
جاں گسل گھڑی کا، دوستوں کی احسان مندی اور سپاس گذاری کا
ذکر ہو یا دشمنوں کی جفاگستری وظلم پروری کے متعلق اظہار
خیال کا، کوئی بھی مرحلہ ہو ادب کا دامن تھامے بغیر طے نہیں
ہوسکتا، نیز اس کی وسعت کا اندازہ ذیل کے اس نقشہ اور شجرہ سے
ہوسکتا ہے جس کو ”ڈاکٹر وزیر آغا“ نے مرتب کیا ہے۔
ادب
نثر نظم
حمد نعت غزل مرثیہ
داستان ناول افسانہ ڈرامہ سوانح سفرنامہ انشائیہ مضمون
طنزیہ مزاحیہ تنقیدی علمی تحقیقی
کتنا ہی سجالے محفل کو اے دوست ․․․․
یہ تھی اردو زبان و ادب کے
تعلق سے تمہیدی وضاحت؛ اب یہ ہے کہ جسے بھی دیکھئے
اردو زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے محفل سجارہا ہے اور بزعم خود ”میاں
مٹھو“ بننے کی کوشش کررہا ہے، دہلی والے بضد ہیں کہ اردو کی
زچہ گیریاں ہم نے گائی ہے، ”اہل دکن“مصر ہیں کہ اس کی
تخم کاری ہماری سرزمین پر ہوئی ”اہل پنجاب“ کا یہ
دعوی ہے کہ یہ دریا ہمارے یہاں سے رواں ہوا ہے، لکھنوٴ
کے ”بھول بھلیوں“ سے یہ صدا آرہی ہے اس کے گیسوئے برہم کو
ہم نے سلجھایا ہے، ”قطب مینار“ اور ”لال قلعہ“ کی فصیل سے
یہ آواز آرہی ہے کہ اس کے بال و پر ہم نے درست کیا ہے۔
غرض ہر کوئی اردو زبان وادب سے اپنی ہمدردی وخیرخواہی
اور وارفتگی و شیفتگی کا گیت سنارہا ہے؛ لیکن کیا
علم وہنر کا گہوارہ ”دارالعلوم دیوبند“ کے جیالوں نے بھی شعر و
شاعری کے میدان میں طالع آزمائی کی ہے؟ کیا
کاشانہٴ حریت کے متوالوں نے کبھی اردو زبان و ادب کی طرف
پیش رفت کی ہے؟
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جی ہاں تاریخ بتاتی ہے
کہ اگر ایک طرف رشد وہدایت کے اس مے خانے سے دین ومذہب اور کتاب
و سنت کے خدام نکلے ہیں تو دوسری طرف ایسے ایسے شائقین
ادب اور ماہرین فن بھی تیار ہوئے ہیں، جنھوں نے شعر و ادب
کی چاشنی، شعر کی سحر انگیزی، غزل کی دل آویزی
اور نثر کی فسوں گری سے کشمیر کی گل پوش وادیوں اور
یخ بستہ پہاڑ کی نالیوں سے لے کر گرم اور تپتے ہوئے ریگستانوں
تک، شمال کی خشک فضا سے لے کر جنوب کی مرطوب؛ لیکن معتدل آب
وہوا تک اردو ادب میں اپنی مہارت کی داد وصول کرچکے ہیں،
”رسالہ الرشید“ کے مدیر اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں
کرتے ہیں:
”برصغیرپاک و ہند میں
دارالعلوم دیوبند کے علماء نے جہاں مذہبی، علمی اور سیاسی
خدمات انجام دی ہیں، ادبی خدمات بھی بڑے زور و شور کے
ساتھ کی ہیں، میری مراد اردو ادب کی خدمت سے
ہے۔“(۷)
یہاں سے اردو کے بڑے بڑے رائٹر پیدا
ہوئے جیسے مناظر احسن گیلانی، شمس العلماء تاجور نجیب
آبادی، سعید احمد اکبرآبادی اور حفظ الرحمان سیوہاروی
وغیرہ، نہ صرف مضمون نگار یا مصنف بلکہ بے شمار ایڈیٹر
اور شاعر بھی، حامد الانصاری غازی،ایڈیٹر ”مدینہ“
بجنور، مظہر الدین شیرکوٹی، مدیر امان دہلی کو کون
نہیں جانتا۔
اس قسم کے فرزندان دارالعلوم کے جہاں بے
شمار خدمات ہیں اور ان کی بڑی بھاری تعداد ہے شاید
ہی کوئی گاؤں اور قریہ ایسا ہوگا جہاں دارالعلوم دیوبند
کے فارغ التحصیل یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ادبی خدمات انجام نہ
دے رہے ہوں، انور صابری اگرچہ دارالعلوم کے فارغ التحصیل نہ تھے مگر
”انور صابری“ کو ”انور صابری“ دارالعلوم کی چہاردیواری
ہی نے بنایا تھا۔(۸)
مذکورہ بالا تمام باتوں کو دارالعلوم دیوبند
کی ایک ادنیٰ سی خدمت شمار کرتا ہوں، سب سے بڑی
خدمت جو دارالعلوم نے اردو کی کی ہے اور جو بہت زیادہ اہمیت
رکھتی ہے یہ ہے کہ اس نے برما، بنگال، دکن، کابل، بخارا، ایران،
سماٹرا، جاوا، کشمیر اور نہ جانے کہاں کہاں دور دراز مقام تک اردو زبان کو
پھیلایا ہے۔
اس درس گاہ میں دور دراز سے تشنگان
علوم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے، چونکہ یہاں ذریعہ تعلیم
اردو زبان رہی ہے لہٰذا وہ اردو سے شناسا ہوجاتے تھے، نہ صرف شناسا
بلکہ اردو کے بہترین مقرر اور خطیب بن جاتے تھے، بہت سے شاعر اور ادیب
بھی بن جاتے تھے۔ پھر اگر ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ ان
لوگوں کے جرائد و اخبارات تصانیف وغیرہ سے کتنے لوگوں نے اردو سیکھی
اور ان کی تقریروں سے عوام کو زبان سے کتنی شناسائی ہوئی
ہے، تو یہ دائرہ بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔(۹)
لیکن اس کے باوجود جب مادیت
کے پرستاروں اور روشن خیال لوگوں کی مجلس میں بوریہ نشینوں،
مسند حدیث کو زینت بخشنے والے علماء اور خانقاہی صوفیا کا
تذکرہ ہوتا ہے تو ان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان بے چاروں کو
اردو ادب سے کیا تعلق؟ شعر و شاعری سے انھیں کیا واسطہ؟ یہ
تو بس منطق و فلسفہ کی گتھیوں میں الجھے رہنے اور تعارض و تطبیق
میں ہمہ وقت توانائی صرف کرنے والے ہیں، ان کا یہ نظریہ
انھیں مبارک ہو، ہم اس پر کسی لب کشائی کے بغیر برصغیر
کے ایک ممتاز عالم کا یہ چشم کشا ریمارک نقل کرنا مناسب سمجھتے
ہیں، فرماتے ہیں کہ:
”اللہ نے ہندوستان میں اسلام کی
نشاة ثانیہ اور تجدید دین کیلئے ”علماء دیوبند“ کا
انتخاب فرمایا تو ان کو علوم اسلامیہ میں گہرائی و گیرائی
کے ساتھ ”شعر گوئی“ اور اردو ادب کی بھرپور صلاحیت سے بھی
نوازا، سرخیل جماعت دیوبندی حاجی ”امداد اللہ صاحب“ ، حجة
الاسلام ”قاسم نانوتوی“ صاحب، قطب الارشاد مولانا ”رشید احمد گنگوہی“
شیخ الہند حضرت مولانا ”محمود حسن“ دیوبندی، محدث عصر مولانا
”انورشاہ“ کشمیری اور شیخ الاسلام ”مولانا حسین احمد مدنی“
صاحبان تک میں قادر الکلام و پاکیزہ شعری ذوق کے ماہرین
کا ایک تسلسل ملتا ہے۔(۱۰)
اردو شعرو ادب میں علماء دیوبند
کی خدمت اور ان کی قدر و منزلت اوپر کی تحریروں سے کسی
نہ کسی درجہ میں ضرور آشکارا ہوجاتی ہے ذیل کے سطور میں
اردو زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے علماء دیوبند کا مکمل تذکرہ تو
نہیں؛ کیونکہ اس کے لئے مستقل تصنیف اور مبسوط مقالے کی
ضرورت ہے البتہ ان میں سے چندبرگزیدہ ہستیوں، چنیدہ شخصیتوں
اور زبان و ادب کے سرخیلوں کا تذکرہ قدرے تفصیل سے سپرد قرطاس کیا
جاتا ہے اور اہم گوشوں پر محتاط انداز میں روشنی ڈالی جاتی
ہے۔ (جاری)
$ $ $
ماخذ ومراجع
(۱) تاریخ
ادبیات عالم ،ج:۵، ص: ۳۱۲۔ از : پروفیسر
محمد وہاب اشرفی۔
(۲) بہار
میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص:۱۶، از: اختر اورینوی۔
(۳) ہندوستانی
لسانیات کا خاکہ، ص: ۲۶، از: ڈاکٹر محی الدین قادری۔
(۴) مقدمہ
ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، ص:۲۲، از: سید احتشام
حسین۔
(۵) غبار
کارواں، ص: ۷۲، از: سید محمد رابع حسنی ندوی۔
(۶) ایضاً،
ص: ۹۲۔
(۷) رسالہ:
”الرشید“، دارالعلوم دیوبند نمبر، ص: ۳۰۳۔
(۸) ایضاً،
ص: ۳۰۳۔
(۹) ایضاً،
ص: ۳۰۴۔
(۱۰) تذکرئہ
طیب، ص: ۱۲۴۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:
90 ،ربیع الثانی1427 ہجری مطابق مئی2006ء